غزل
سامنے جب کوئی
بھرپور جوانی آئے
پھر طبیعت میں
مری کیوں نہ روانی آئے
کوئی پیاسا بھی
کبھی اس کی طرف رخ نہ کرے
کسی دریا کو اگر
پیاس بجھانی آئے
میں نے حسرت سے
نظر بھر کے اسے دیکھ لیا
جب سمجھ میں نہ
محبت کے معانی آئے
اس کی خوشبو سے
کبھی میرا بھی آنگن مہکے
میرے گھر میں
بھی کبھی رات کی رانی آئے
زندگی بھر مجھے
اس بات کی حسرت ہی رہی
دن گزاروں تو
کوئی رات سہانی آئے
زہر بھی ہو تو
وہ تریاق سمجھ کر پی لے
کسی پیاسے کے
اگر سامنے پانی آئے
عین ممکن ہے
کوئی ٹوٹ کے چاہے ساقیؔ
کبھی ایک بار
پلٹ کر تو جوانی آئے
ساقی امروہوی