Sunday, 29 March 2020

Samne jab koi bharpur jawani aae ( When someone comes to Youth )

غزل

سامنے جب کوئی بھرپور جوانی آئے
پھر طبیعت میں مری کیوں نہ روانی آئے

کوئی پیاسا بھی کبھی اس کی طرف رخ نہ کرے
کسی دریا کو اگر پیاس بجھانی آئے

میں نے حسرت سے نظر بھر کے اسے دیکھ لیا
جب سمجھ میں نہ محبت کے معانی آئے

اس کی خوشبو سے کبھی میرا بھی آنگن مہکے
میرے گھر میں بھی کبھی رات کی رانی آئے

زندگی بھر مجھے اس بات کی حسرت ہی رہی
دن گزاروں تو کوئی رات سہانی آئے

زہر بھی ہو تو وہ تریاق سمجھ کر پی لے
کسی پیاسے کے اگر سامنے پانی آئے

عین ممکن ہے کوئی ٹوٹ کے چاہے ساقیؔ
کبھی ایک بار پلٹ کر تو جوانی آئے

ساقی امروہوی



Saturday, 28 March 2020

Iss chaman ko kabhi (Never let this moon be desert )

غزل

اِس چمن کو کبھی صحرا نہیں ہونے دونگا
مر مٹوں گا مگر ایسا نہیں ہونے دونگا

جب تلک میری پلکوں پے دیئے روشن ہیں
اپنی نگری میں اندھیرا نہیں ہونے دونگا

تو اگر میرا نہیں ہے تو مجھے بھی ضد ہے
میں  تجھے بھی کبھی تیرا نہیں ہونے دونگا

رَت جگوں نے میری آنکھوں کی بصارت لےلی
دلِ بینا تجھے اندھا نہیں ہونے دونگا

دفن ہو جائے گا خود رات کی تاریکی میں
جو یہ کہتا ہے سویرا نہیں ہونے دونگا

ساقی امروہوی


Thursday, 26 March 2020

sunte hain ki mil jati hai har chiz dua se ( Everything is found by prayer )

غزل

سنتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہر چیز دُعا سے
اک راز تجھے مانگ کے دیکھیں گے خدا سے

تم سامنے بیٹھے ہو تو ہے کیف کی بارش
وہ دن بھی تھے جب آگ برستی تھی گھٹا سے

اے دِل تو اُنہیں دیکھ کے کچھ ایسے تڑپنا
آجائے ہنسی اُن کو جو بیٹھے ہیں خفا سے

دُنیا بھی ملی ہے غمِ دُنیا بھی ملا ہے
وہ کیوں نہیں ملتا جسے مانگا تھا خُدا سے

جب کچھ نہ ملا ہاتھ دُعاؤں کا اُٹھا کر
پھر ہاتھ اُٹھانے ہی پڑے ہم کو دُعا سے

آئینے میں وہ اپنی ادا دیکھ رہے ہیں
مر جائے کہ جی جائےکوئی اُن کی بلا سے

میر تقی میرؔ



Tuesday, 24 March 2020

uske nazdik gham-e-tark-e-wafa ( The grief left by him )

غزل

اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئین ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مِٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

چار دِن رہ گئے میلے میں مگر اب کے بھی
اُس  نے آنے کےلئے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

کل بچھڑنا   ہے تو  پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

میں تو اِس واسطے چُپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو  سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ  کچھ بھی نہیں

اے شماؔرآنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتہ کچھ بھی نہیں

اختر شماؔر 



Monday, 23 March 2020

Koun pursan e hall hai mera ( Who is mine )


 غزل

کون پُر سانِ حال ہے میرا
زندہ رہنا کمال ہے میرا

تو نہیں تو تیرا خیال سہی
کوئی تو ہم خیال ہے میرا

میرے اعصاب دے رہے ہیں جواب
حوصلہ کب نڈھال ہے میرا

چڑھتا سورج بتا رہا ہے مجھے
بس یہیں سے زوال ہے میرا

سب کی نظریں میری نگاہ میں ہیں
کس کو کتنا خیال ہے میرا

ساقؔی امروہوی



Sunday, 22 March 2020

lakho sadme dhero gham (Millions of grief )


غزل

لاکھوں صدمے ڈھیروں غم
پھر بھی نہیں ہے آنکھیں نم

ایک مدّ ت سے روئے نہیں
کیا پتھر کے ہو گئے ہم

یوں پلکوں پر ہیں آنسو
جیسے پھولوں پر شبنم

ہم اُس  جنگل میں ہیں جہاں
دُھوپ ہے زیادہ سائے کم

اب زخموں میں تاب نہیں
اب کیوں لائے ہو مرہم

راھول 



Saturday, 21 March 2020

Kabhi Khushi say ( Ever not happily )

غزل

کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا
تمہارے بعد کسی کی طرف نہیں دیکھا

یہ سوچ کر کہ تیرا انتظار لازم ہے
تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا

یہاں تو جو بھی ہے آبِ رواں کا عاشق ہے
کسی نے خشک ندی کی طرف نہیں دیکھا

وہ جس کے واسطے پردیس جا رہا ہوں میں
بچھڑ تے وقت اُسی  کی طرف نہیں دیکھا

نہ روک لے ہمیں روتا ہوا کوئی چہرہ
چلے تو مُڑ کر گلی کی طرف نہیں دیکھا

بچھڑتے وقت بہت مطمئن   تھے ہم دونوں
کسی نے مڑ کے کسی کی طرف نہیں دیکھا

روش بزرگوں کی شامل ہے میری گُھٹی میں
ضرورتاً بھی سخی   کی طرف نہیں دیکھا

منور رانا


Friday, 20 March 2020

Jab Bhi Chahen Ik Nai ( A new look whenever you want )


غزل

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

درد اُٹھتا ہے مگر  رُسوائیوں کے خوف سے
اپنے دِل کی چوٹ دُنیا سے چھپا  لیتے ہیں لوگ

مل نہیں سکتا جلانے کو اگر کوئی چراغ
اپنے گھر کو آنسوؤں سے جگمگا  لیتے ہیں لوگ

مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کے لئے
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی چُرا لیتے ہیں لوگ

کوئی مُفلس ہو تو یہ نفرت سے ٹھوکر مار دیں
اہلِ زر آئیں تو یہ سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ

ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کے لئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ

یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ

روشنی ہے ان کا ایماں، روک مت ان کو قتیلؔ
دِل جلاتے ہیں یہ اپنا، تیرا کیا لیتے ہیں لوگ

قتیلؔ شفائی



Monday, 16 March 2020

Hathoon main un kay Phool ( Rose in Hands )

غزل

ہاتھوں میں اُن کے پھول بھی پتھر لگے مجھے
اپنوں کے نام سے ہی بڑا ڈر لگے مجھے

کانٹے بھی جن کی راہ کے پلکوں پہ رکھ لئے
اُن کی یہی دُعا ہے کہ ٹھوکر لگے مجھے

گرداب سے نکل کر اگر آگیا تو کیا
یہ شہر بے کراں بھی سمندر لگے مجھے

اشکوں کو میرے جس نے سہارا نہیں دیا
وہ بے وفا ، وفاؤں کا پیکر لگے مجھے

ہر گام پر کھڑی ہیں نئی مشکلیں مگر
پہلے سے اب یہ زندگی بہتر لگے مجھے

لمحہ ٹہر گیا تھا جو رستے میں روٹھ کر
کاوشؔ پکارتا  ہے وہ اکثر لگے مجھے

محمد حسین کاوشؔ



Sunday, 15 March 2020

Iss say pehlay kay Baywafa ( Before unfaithful )





غزل

اِس سے پہلے کہ بےوفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جُدا ہو جائیں

دیر  سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں

عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں ،کیمیا ہو جائیں

اب کے گر  تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تیری قبا ہو جائیں


بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ

کیا کریں لوگ جب خُدا ہو جائیں




Friday, 13 March 2020

Pathar bana diya mujhe ( Stone you made me )

غزل

پتھر بنا دیا مجھے رونے نہیں دیا
دامن بھی تیرے غم نے بھگونے نہیں دیا

تنہایاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے  نہیں دیا

آنکھوں میں آ کےبیٹھ گئی اشکوں کی لہر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا

دل کو تمہارے نام کے آنسو عزیز تھے
دُنیا کا درد اِس میں سمونے نہیں دیا

ناصرؔ یوں اُس  کی یاد چلی ہاتھ تھام کے
میلے میں اِس جہان کے کھونے نہیں دیا




Aks Kitnay Utar Gaye Mujh Mein ( The mirrors all landed in me)


غزل

عکس سارے اُتر گئے مجھ میں
پھر نہ جانے کدھر گئے مجھ میں

میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں

میں وہ پل تھا جو کھا گیا صدیاں
سب زمانے گذر گئے مجھ میں

یہ جو میں ہوں، ذرا سا باقی ہوں
وہ جو تم تھے، وہ مر گئے مجھ میں



Thursday, 12 March 2020

Tera Peyar hum nahi ( We are not your love )


غزل

مانا تیری نظر میں تیرا پیار ہم نہیں
کیسے کہیں کے تیرے طلبگار ہم نہیں

خود کو جلا کر  راکھ بنایا مٹا دیا
لو اب تمہا ری راہ میں دیوار ہم نہیں

جس کو نکھارا ہم نے تمناؤں کے خون سے
گلشن میں اُس بہار کے ، حق دار ہم نہیں

دھوکا دیا ہے خود کو محبت کے نام پر
کیسے کہیں کہ تیرے طلبگار ہم نہیں


Tuesday, 10 March 2020

Choti Si khata ( Minor Mistake)


غزل

چھوٹی سی اک خطا کی تلافی نہ کرسکے
محفل میں کوئی بات اضافی نہ کرسکے

وعدہ یہی تھا ہم اُسے چاہیں گے عمر بھر
ہم عمر بھر یہ وعدہ خلافی نہ کرسکے

تونے جہاں کہا وہیں ٹہرا رہا ہے عشق
کچھ بھی تیری رضا کے منافی نہ کرسکے

آئے وہ سامنے تو نظر جھک کے رہ گئی
دھڑکا وہ دِل کے بات بھی کافی نہ کرسکے

روئے زمیں پہ تم سے مسیحا ملے تو تھے
لیکن کسی دوا کو بھی شافی نہ کرسکے



Saturday, 7 March 2020

Duniya Ka kuch Bura ( The world is not bad )

غزل

دنیا کا کچھ بُرا بھی تما شا نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا

تم سے ملے بھی ہم تو جُدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا

کہتے تھے ایک پل  نہ جیئیں گےتیرے بغیر
ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا

کاٹے  ہیں اِس طرح سےترے بغیر روزوشب
میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا

کیسے ملائیں آنکھ کسی آئینے سے ہم
امجدؔ ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا

امجد اسلام امجدؔ




Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے