غزل
اُس کے نزدیک
غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئین ایسا ہے
وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے
لکیریں بھی مِٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر
تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
چار دِن رہ گئے
میلے میں مگر اب کے بھی
اُس نے آنے کےلئے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو
پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت
ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تو اِس
واسطے چُپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
اے شماؔرآنکھیں
اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ
آ جائے پتہ کچھ بھی نہیں
اختر شماؔر
No comments:
Post a Comment