غزل
دنیا کا کچھ
بُرا بھی تما شا نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس
طرح ویسا نہیں رہا
تم سے ملے بھی
ہم تو جُدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب
تو دریا نہیں رہا
کہتے تھے ایک
پل نہ جیئیں گےتیرے بغیر
ہم دونوں رہ گئے
ہیں وہ وعدہ نہیں رہا
کاٹے ہیں اِس طرح سےترے بغیر روزوشب
میں سانس لے رہا
تھا پر زندہ نہیں رہا
کیسے ملائیں
آنکھ کسی آئینے سے ہم
امجدؔ ہمارے پاس
تو چہرہ نہیں رہا
امجد اسلام
امجدؔ
No comments:
Post a Comment