غزل
چھوٹی سی اک خطا
کی تلافی نہ کرسکے
محفل میں کوئی
بات اضافی نہ کرسکے
وعدہ یہی تھا ہم
اُسے چاہیں گے عمر بھر
ہم عمر بھر یہ
وعدہ خلافی نہ کرسکے
تونے جہاں کہا
وہیں ٹہرا رہا ہے عشق
کچھ بھی تیری
رضا کے منافی نہ کرسکے
آئے وہ سامنے تو
نظر جھک کے رہ گئی
دھڑکا وہ دِل کے
بات بھی کافی نہ کرسکے
روئے زمیں پہ تم
سے مسیحا ملے تو تھے
لیکن کسی دوا کو
بھی شافی نہ کرسکے
No comments:
Post a Comment