غزل
کبھی خوشی سے
خوشی کی طرف نہیں دیکھا
تمہارے بعد کسی کی
طرف نہیں دیکھا
یہ سوچ کر کہ
تیرا انتظار لازم ہے
تمام عمر گھڑی کی
طرف نہیں دیکھا
یہاں تو جو بھی
ہے آبِ رواں کا عاشق ہے
کسی نے خشک ندی کی
طرف نہیں دیکھا
وہ جس کے واسطے
پردیس جا رہا ہوں میں
بچھڑ تے وقت
اُسی کی طرف نہیں دیکھا
نہ روک لے ہمیں
روتا ہوا کوئی چہرہ
چلے تو مُڑ کر
گلی کی طرف نہیں دیکھا
بچھڑتے وقت بہت
مطمئن تھے ہم دونوں
کسی نے مڑ کے
کسی کی طرف نہیں دیکھا
روش بزرگوں کی
شامل ہے میری گُھٹی میں
ضرورتاً بھی
سخی کی طرف نہیں دیکھا
منور رانا
No comments:
Post a Comment