Saturday, 21 March 2020

Kabhi Khushi say ( Ever not happily )

غزل

کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا
تمہارے بعد کسی کی طرف نہیں دیکھا

یہ سوچ کر کہ تیرا انتظار لازم ہے
تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا

یہاں تو جو بھی ہے آبِ رواں کا عاشق ہے
کسی نے خشک ندی کی طرف نہیں دیکھا

وہ جس کے واسطے پردیس جا رہا ہوں میں
بچھڑ تے وقت اُسی  کی طرف نہیں دیکھا

نہ روک لے ہمیں روتا ہوا کوئی چہرہ
چلے تو مُڑ کر گلی کی طرف نہیں دیکھا

بچھڑتے وقت بہت مطمئن   تھے ہم دونوں
کسی نے مڑ کے کسی کی طرف نہیں دیکھا

روش بزرگوں کی شامل ہے میری گُھٹی میں
ضرورتاً بھی سخی   کی طرف نہیں دیکھا

منور رانا


No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے