غزل
سنتے ہیں کہ مل
جاتی ہے ہر چیز دُعا سے
اک راز تجھے
مانگ کے دیکھیں گے خدا سے
تم سامنے بیٹھے
ہو تو ہے کیف کی بارش
وہ دن بھی تھے
جب آگ برستی تھی گھٹا سے
اے دِل تو
اُنہیں دیکھ کے کچھ ایسے تڑپنا
آجائے ہنسی اُن
کو جو بیٹھے ہیں خفا سے
دُنیا بھی ملی
ہے غمِ دُنیا بھی ملا ہے
وہ کیوں نہیں
ملتا جسے مانگا تھا خُدا سے
جب کچھ نہ ملا
ہاتھ دُعاؤں کا اُٹھا کر
پھر ہاتھ
اُٹھانے ہی پڑے ہم کو دُعا سے
آئینے میں وہ
اپنی ادا دیکھ رہے ہیں
مر جائے کہ جی
جائےکوئی اُن کی بلا سے
میر تقی میرؔ
No comments:
Post a Comment