غزل
جب بھی چاہیں اک
نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی
چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
درد اُٹھتا ہے
مگر رُسوائیوں کے خوف سے
اپنے دِل کی چوٹ
دُنیا سے چھپا لیتے ہیں لوگ
مل نہیں سکتا
جلانے کو اگر کوئی چراغ
اپنے گھر کو
آنسوؤں سے جگمگا لیتے ہیں لوگ
مل بھی لیتے ہیں
گلے سے اپنے مطلب کے لئے
آ پڑے مشکل تو
نظریں بھی چُرا لیتے ہیں لوگ
کوئی مُفلس ہو
تو یہ نفرت سے ٹھوکر مار دیں
اہلِ زر آئیں تو
یہ سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ
ہو خوشی بھی ان
کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کے
لئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ
یہ بھی دیکھا ہے
کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے
کاندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ
روشنی ہے ان کا
ایماں، روک مت ان کو قتیلؔ
دِل جلاتے ہیں
یہ اپنا، تیرا کیا لیتے ہیں لوگ
قتیلؔ شفائی
No comments:
Post a Comment