Monday, 29 June 2020

Naam tera hai ( Your name only )



غزل

جو نقش دل پہ ہے وہ نام تیرا ہے

میری حیات کا ہر لمحہ تمام تیرا ہے


میرا پتہ، میری پہچان  ہے  تجھ سے

میرے وجود میں قائم مقام تیرا ہے


تمہیں بنایا ہے جب سے اپنا معبود

ہر ایک سجدہ اور قیام تیرا ہے


مٹا سکے گا نہ زمانہ کبھی تیرا وجود

ازل سے ابد تک دائم نام تیرا ہے


وجد میں جانے کیا کہہ گیا عاؔدل

ہے زبان میری مگر کلام تیرا ہے

 

Sunday, 28 June 2020

Peyar main wafa ( Faithful in love )


غزل

 پیار میں جب تیرے  وفا ہی نہیں

زندہ رہنے کو کچھ بچا ہی نہیں


بات سمجھائی جو تیرے رویّے نے

کہنے سننے کو کچھ  اب  رہا ہی نہیں


کیسے زندہ رہے وہ غربت میں

گھر میں کھانے کو جب غذا ہی نہیں


پی کے جس کو سُرور آجائے

تیری آنکھوں میں وہ نشہ ہی نہیں


کیسے ہو ں تیری عبادتیں قبول

مانگتا جب تو کوئی دُعا ہی نہیں


جس کو پی کو شفاء مل جائے

عشق  میں ایسی کوئی دوا ہی نہیں


چل رہا ہے نظام دُنیا کا

کیسے کہہ دوں کہ  خُدا ہی نہیں


کیسے پائے گا وہ نجات آخر

تیری سرکار میں جو  جھکا ہی نہیں


دور رہنا حسین لوگوں سے

حُسن والوں میں   وفا ہی نہیں


تم یہ سمجھے بھول گیا ہوں    عاؔدل

میرے دل سے تُو  گیا ہی نہیں

 

Thursday, 25 June 2020

Ishq kay Mureed ( Disciple of love )


عشق کے مرید ہیں ہم لوگ، جو کہتا ہے مان لیتے ہیں

زندگی کیا چیز ہے عاؔدل، حسن والے تو جان لیتے ہیں


کوئی اور نہیں اِس دل، میں بس تو ہی تو ہے آباد

دیکھ کر مجھ کو زمانے والے تجھ کو  پہچان لیتے ہیں  




Wednesday, 24 June 2020

Milnay kay bahanay ( Excuses to meet )


ہم اُن سے ملنے کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں

غم کوبھلانے کے لئے پیمانے ڈھونڈ لیتے ہیں


دل کی کیفیت  بیان کرنے کے لئے عاؔدل

ہر ایک حقیقت میں افسانے ڈھونڈ لیتے ہیں




Saturday, 20 June 2020

Zinda Rehnay kayleye ( For survival )


غزل


زندہ رہنے کے لئے کوئی بہانہ چاہیے

درد کے ماحول میں بھی مسکرانا چاہیے


راہ کی دشواریاں اپنی جگہ ہوں گی مگر

دو قدم تو اُس کو میرے ساتھ آنا چا ہیے


اب محبت میں جنم لینے لگے وسوسے

اب یہی بہتر ہے کہ اُس کو بھول جانا چاہیے


لازمی ہیں چاہتوں میں  رنجشوں کے سلسلے

بے سبب اک روز اُس سے روٹھ جانا چاہیے


ہم کو بھی حسنینؔ ظلمت کا سفر درپیش ہے

پھر سرِ ساحل سفینوں کو جلانا چاہیے


حسنینؔ بخاری


Friday, 19 June 2020

Meri chah ( My Love )


میری چاہ

تیری یاد دے وچ سدا بلدے رہندے

میری  بے نور اکھاں دے ڈیوے


تیرے ہجر نے مینوں مار مُکایا

کر کوئی سجن  ملن دے حیلے 



Thursday, 18 June 2020

Zindgi teray baghair ( Life without you )


زندگی تیرے بغیر اپنی اچھی نہیں  ہو سکتی

جھوٹ بول کر  خُود سے سچّی نہیں  ہو سکتی


خودکو یا د رکھ کر اُسے بھول جائیں عاؔدل

ہم سے محبت میں  یہ بے ادبی نہیں  ہو سکتی



Sach tu ye hai (We don't want the truth )


سچ تو یہ ہے  کہ ہم سچ نہیں سننا چاہتے

کوئی بھی کام اپنے حصّے کا نہیں کرنا چاہتے


فتویٰ ہم کو اپنی مرضی کا ہی  چاہیے  عادؔل

ورنہ اِسلام کے احکام پہ نہیں چلنا چاہتے


Monday, 15 June 2020

Khak hi khak ( Dust only dust )


خاک ہی خاک

ہم نے مانا کے تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

 

زندگی خاک نہ تھی، خاک  اُڑاتے گُزری

تجھ سے کیا کہتے، ترے پاس جو آتے گُذری



بیٹھ جاتا ہوں خاک پر اکثر

اپنی اوقات اچھی لگتی ہے

 

خاک کا پُتلا ہوں معافی چاہتا ہوں

عرش والے سے بھی، فرش والوں سے بھی

 

بہکا تو بہت بہکا سنبھلا تو ولی ٹھہرا

اِس خاک کے پتلے کا ہر رنگ نرالا ہے

 

میں خاک بن جاواں گلیاں دی

اگر یار اُڈا دے پیراں نال!!



خاک مٹھی میں لیے قبر کی سوچتا ہوں

انسان جو مر جاتے ہیں تو غرور کہاں جاتا ہے

 

میری خاک بھی اُڑے گی باادب تیری گلی میں

تیرے آستاں سے اُونچا ،نہ میرا غبار ہوگا۔۔!

 

ملا کر خاک میں مجھ کووہ کچھ اِس ادا سے بولا

کھلونا تھا یہ مٹی کا، کہاں رکھنے کے قابل تھا۔

 

آج ہماری خاک پہ دنیا، رونے  دھونےبیٹھی ہے

پھول ہوئے ہیں اتنے سستے جانے کتنے برسوں بعد

 

تم مجھے خاک بھی سمجھو تو کوئی بات نہیں

یہ بھی اُڑتی ہے تو آنکھوں میں سما جاتی ہے



Sunday, 14 June 2020

Dill abhi tak jawan ( Heart is still young )


غزل

دِل ابھی تک جوان ہے پیارے

کس مصیبت میں جان ہے پیارے


رات کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات

یہ بڑی داستان ہے پیارے


تلخ  کر دی ہے زندگی جس نے

کتنی میٹھی زبان ہے پیارے


جانے کیا کہہ دیا  تھا روزِ ازل

آج تک امتحان ہے پیارے


کب کیا میں نے عشق  کا دعویٰ

تیرا اپنا گمان ہے پیارے


میں تجھے بے وفا نہیں کہتا

دُشمنوں کا بیان  ہے پیارے


تیرے کوچے میں ہے سکوں ورنہ

ہر زمیں آسمان ہے پیارے


حفیظ جالندھری 

Friday, 12 June 2020

Wo dill hi kia ( Heart that does not meet you)


غزل

وہ دِل ہی کیا جو  تیرے ملنے کی دُعا نہ کرے

میں تجھ کو بُھول کے زندہ  رہوں خُدا نہ کرے


رہے گا ساتھ تیرا پیا ر زندگی بن کر

یہ اور بات میری زندگی وفا نہ کرے


یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں

خدا کسی  سے کسی  کو مگر جُدا نہ کرے


سُنا ہے اُسکو محبت دُعائیں دیتی ہے

جو دِل  پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے


بجھا دیا ہے نصیبوں نے مرے پیار کا چاند

کوئی دِیا میری پلکوں پہ اب جلا نہ کرے


زمانہ دیکھ چکا ہے ،پرکھ چکا ہے اُسے

قتیلؔ جان سے جائے پر التجا نہ کرے


 قتیلؔ شفائی


Monday, 8 June 2020

Rothay howay Sajan ( The angry Lover )


غزل

آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا

اپنے اُجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا


جب کبھی گردشِ تقدیر نے گھیرا ہے ہمیں

گیسوئے یار کی اُلجھن کو بہت یاد کیا


شمع کی جوت پہ جلتے ہوئے پروانوں نے

اک تیرے شعلہِ دامن کو بہت یاد کیا


جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہوگا

ہم نے اُس وقت کی دُلہن  کو بہت یاد کیا


آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی بہت یاد آئی ہے

آج بیتے ہوئےساون کو بہت یاد کیا


ہم سرِطور بھی مایوسِ تجلی ہی رہے

ا س  درِ یار کی چلمن کو بہت یاد کیا


مطمئین ہو ہی گئے دام وقفس میں ساغرؔ

ہم اسیروں نے نشیمن کو بہت یاد کیا 



Sunday, 7 June 2020

Apnay hathoon ki lakeerain ( My fate lines )



غزل

اپنےہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا، رہنے دے

جو لکھا ہے وہی قسمت میں لکھا رہنے دے


سچ پوچھو تو زندہ ہوں میں ،  اُنہیں کی خاطر

تشنگی! مجھ کو سرابوں میں گھرا رہنے دے


آہ اےعشرتِ رفتہ !! نکل آئے آنسو

میں نہ کہتا تھا؟ کہ اتنا نہ ہنسا ، رہنے دے


اُس کو دھندلا نہ سکے گاکبھی لمحوں کا غُبار

میری ہستی کا ورق یوں ہی کھلا رہنے دے


شرط یہ ہے کہ رہے ساتھ وہ منزل منزل

ورنہ زحمت نہ کرےبادِ صبا ، رہنے دے


زندگی میرے لئے درد کا صحرا ہے شمیم

میرے ماضی! مجھے اب یاد نہ آ رہنے دے


Saturday, 6 June 2020

Akailay rehna seekh leya ( Learned to live alone )


غزل

 اب اکیلےہم نے   رہنا  سیکھ لیا ہے

دل کی باتیں خودسے کہنا سیکھ لیاہے


مجھے کسی کندھے کی ضرورت نہیں

تنہا تنہا چپکے چپکے رونا سیکھ لیا ہے


میرے زخم کون بھلا سی پائے گا

 اپنے  ہاتھوں زخم سینا سیکھ لیا ہے


بات عجب ہےپریہی سچ ہے

غم کا زہر تھوڑا تھوڑا پینا سیکھ لیا ہے


عُمر بھر ساتھ کون دیتا ہے کسی کا

پل پل مرنا، پل پل جینا سیکھ لیا ہے  



Friday, 5 June 2020

Dill teri yaad main ( Heart in your memory )



غزل

دل تیری یاد میں جب گم ہوتا ہے

بھول جاتا ہوں جو بھی الم ہوتا ہے


نگاہِ یار کا جب خا ص کرم ہوتا ہے

خانہ دِل    محبوب کا حرم ہوتا ہے


تیری دیوانگی میں ایسا  اثر ہوتا ہے

مٹ جاتا ہے  جو بھی ستم ہوتا ہے


آنکھ روتی ہے،   دل تڑ  پتا رہتا ہے

جانے والوں کا ہمیشہ غم ہوتا ہے


ہنستے ہوئے ہر غم کو چھُپا لیتے ہیں

جینے والوں کا تو   اتنا  سا بھرم ہوتا ہے


دَار کو چوم کر لگاتے ہیں گلے سے عادل

جان جانے کا کب اُن کو غم ہوتا ہے


Thursday, 4 June 2020

Bol Kaffara kia ho ga ( Expiation of love )


بول کفارہ کیا ہو گا

دل غلطی کر بیٹھا ہے غلطی کر بیٹھا ہے دل

دل غلطی کر بیٹھا ہے، بول کفارہ کیا ہو گا

میرے دل کی دل سے توبہ، دل سے توبہ میرے دل کی

دل کی توبہ اے دل ،اب  پیار دوبارہ نہ ہو گا


ہم نے  جگنو جگنوکر کے  تیرے ملن کے دیپ جلائے ہیں

انکھیوں میں موتی بھر بھر کےتیرے ہجر میں ہاتھ اُٹھائے ہیں

تیرے نام کے حرف کی تسبیح کو سانسوں کے گلے کا   ہار کیا

دنیا بھولی اور صرف تجھے، ہاں صرف تجھے ہی پیار کیا

تم جیت گئے ہم ہارے، ہم ہارے اور تم جیتے

تم جیتے ہو لیکن ہم سا کوئی ہارا    نہ  ہو گا


ہمیں تھی غرض تم سے اور تمہیں بے غرض ہونا تھا

تمہیں ہی لا دوا ہو کر ہمارا مرض ہونا تھا

چلو ہم فرض کرتے ہیں کہ تم سے پیار کرتے ہیں

مگر اِس پیار کو بھی کیا ہمیں پہ فرض ہونا تھا


ہم نے دھڑکن  دھڑکن  کر کےدل تیرے دل سے جوڑ لیا

آنکھوں نے آنکھیں پڑھ پڑھ کے ،تجھے ورد بنا کے یاد کیا

تجھے پیار کیا تو ، تو ہی بتا، ہم نے کیا کوئی جرم کیا

اور جرم کیا ہے تو بھی بتا، میرے جرم کے جرم کی کیا ہے سزا

تمہیں ہم سے بڑھ کر دُنیا، دُنیا تمہیں ہم سے پڑھ کر

ہم کو تم سے بڑھ کر کوئی جان سے پیارا نہ  ہوگا


میرے دل کی دل سے توبہ، دل سے توبہ میرے دل کی

دل کی توبہ اے دل ،اب  پیار دوبارہ نہ ہو گا

تو بول کفارہ، کفارہ بول کفارہ کیا ہو گا

اُو یارا بول کفارہ کیا ہو گا 






Wednesday, 3 June 2020

Sar jhukaya tu pathar sanum ban gai ( Lover Head bowed )

کلام

سر جھکا یا تو پتھر صنم بن گئے

عشق بھٹکا تو  حق آشنا ہو گیا

رشک کرتا ہے  کعبہ میرے کفر پر

میں نے جس بُت کوپوجا وہ  خُدا ہو گیا


گم رہی ہے کہ معراج ہے عشق کی

اے جنوں بول  منزل ہے یہ کون سی

اُس کے گھر کا پتہ پوچھتے پوچھتے

پوچھنے والا خود لا پتہ ہو گیا


میں محبت سے منہ موڑ لیتا اگر

ٹوٹ پڑتی یہ بجلی کسی اور پر

میرے دِل کی تباہی سے یہ  تو ہوا

کم سےکم دوسروں کا بھلا ہو گیا


وقت ،احباب، پرچھائیں، سورج ،کرن

روگ ،دُنیا ، خوشی ،چاندنی، زندگی

میرے محبوب اِک تیرے غم کے سوا

جو ملا راستے میں جُدا ہو گیا


کاروبارِ تمنا میں یہ تو ہوا

اُن کے قدموں پہ مرنے کا موقع ملا

زندگی پھر تو گھاٹا اُٹھا تے رہے

آ ج پہلی دفعہ فائدہ ہو گیا


ایسا بھٹکا کے لوٹا نہیں آج تک

ایسا بچھڑاکے آیانہیں آج تک

دل بھی کم بخت ہے اس قدر باولا

آپ کے گھر گیا آپ کا ہو گیا


Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے