غزل
پیار میں جب تیرے وفا ہی نہیں
زندہ رہنے کو کچھ بچا ہی نہیں
بات سمجھائی جو تیرے رویّے نے
کہنے سننے کو کچھ اب رہا
ہی نہیں
کیسے زندہ رہے وہ غربت میں
گھر میں کھانے کو جب غذا ہی نہیں
پی کے جس کو سُرور آجائے
تیری آنکھوں میں وہ نشہ ہی نہیں
کیسے ہو ں تیری عبادتیں قبول
مانگتا جب تو کوئی دُعا ہی نہیں
جس کو پی کو شفاء مل جائے
عشق میں
ایسی کوئی دوا ہی نہیں
چل رہا ہے نظام دُنیا کا
کیسے کہہ دوں کہ
خُدا ہی نہیں
کیسے پائے گا وہ نجات آخر
تیری سرکار میں جو
جھکا ہی نہیں
دور رہنا حسین لوگوں سے
حُسن والوں میں
وفا ہی نہیں
تم یہ سمجھے بھول گیا ہوں عاؔدل
میرے دل سے تُو
گیا ہی نہیں
No comments:
Post a Comment