Monday, 15 June 2020

Khak hi khak ( Dust only dust )


خاک ہی خاک

ہم نے مانا کے تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

 

زندگی خاک نہ تھی، خاک  اُڑاتے گُزری

تجھ سے کیا کہتے، ترے پاس جو آتے گُذری



بیٹھ جاتا ہوں خاک پر اکثر

اپنی اوقات اچھی لگتی ہے

 

خاک کا پُتلا ہوں معافی چاہتا ہوں

عرش والے سے بھی، فرش والوں سے بھی

 

بہکا تو بہت بہکا سنبھلا تو ولی ٹھہرا

اِس خاک کے پتلے کا ہر رنگ نرالا ہے

 

میں خاک بن جاواں گلیاں دی

اگر یار اُڈا دے پیراں نال!!



خاک مٹھی میں لیے قبر کی سوچتا ہوں

انسان جو مر جاتے ہیں تو غرور کہاں جاتا ہے

 

میری خاک بھی اُڑے گی باادب تیری گلی میں

تیرے آستاں سے اُونچا ،نہ میرا غبار ہوگا۔۔!

 

ملا کر خاک میں مجھ کووہ کچھ اِس ادا سے بولا

کھلونا تھا یہ مٹی کا، کہاں رکھنے کے قابل تھا۔

 

آج ہماری خاک پہ دنیا، رونے  دھونےبیٹھی ہے

پھول ہوئے ہیں اتنے سستے جانے کتنے برسوں بعد

 

تم مجھے خاک بھی سمجھو تو کوئی بات نہیں

یہ بھی اُڑتی ہے تو آنکھوں میں سما جاتی ہے



No comments:

Post a Comment

Zindgi Ki Kitaab ( Life Book)

زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں  خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...