غزل
دِل ابھی تک
جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں
جان ہے پیارے
رات کم ہے نہ
چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے
پیارے
تلخ کر دی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان
ہے پیارے
جانے کیا کہہ
دیا تھا روزِ ازل
آج تک امتحان ہے
پیارے
کب کیا میں نے
عشق کا دعویٰ
تیرا اپنا گمان ہے
پیارے
میں تجھے بے وفا
نہیں کہتا
دُشمنوں کا بیان
ہے پیارے
تیرے کوچے میں
ہے سکوں ورنہ
ہر زمیں آسمان ہے
پیارے
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment