غزل
اب اکیلےہم
نے رہنا سیکھ لیا ہے
دل کی باتیں
خودسے کہنا سیکھ لیاہے
مجھے کسی کندھے
کی ضرورت نہیں
تنہا تنہا چپکے
چپکے رونا سیکھ لیا ہے
میرے زخم کون
بھلا سی پائے گا
اپنے
ہاتھوں زخم سینا سیکھ لیا ہے
بات عجب ہےپریہی
سچ ہے
غم کا زہر تھوڑا
تھوڑا پینا سیکھ لیا ہے
عُمر بھر ساتھ کون
دیتا ہے کسی کا
پل پل مرنا، پل
پل جینا سیکھ لیا ہے
No comments:
Post a Comment