غزل
اپنےہاتھوں کی
لکیریں نہ مٹا، رہنے دے
جو لکھا ہے وہی
قسمت میں لکھا رہنے دے
سچ پوچھو تو
زندہ ہوں میں ، اُنہیں کی خاطر
تشنگی! مجھ کو
سرابوں میں گھرا رہنے دے
آہ اےعشرتِ رفتہ
!! نکل آئے آنسو
میں نہ کہتا
تھا؟ کہ اتنا نہ ہنسا ، رہنے دے
اُس کو دھندلا
نہ سکے گاکبھی لمحوں کا غُبار
میری ہستی کا
ورق یوں ہی کھلا رہنے دے
شرط یہ ہے کہ
رہے ساتھ وہ منزل منزل
ورنہ زحمت نہ
کرےبادِ صبا ، رہنے دے
زندگی میرے لئے
درد کا صحرا ہے شمیم
میرے ماضی! مجھے
اب یاد نہ آ رہنے دے
No comments:
Post a Comment