غزل
ہوتے ہیں آج کل
ذرا اہلِ وفا بھی کم
ایک دوسرے سے کرتے
ہیں اپنا گِلا بھی کم
یوں اپنے درد
میں دونوں اُداس ہیں
رِشتوں میں
عاشقی کے ہیں رسمِ وفا بھی کم
کِن راستوں میں
لائی ہے آوارگی مجھے
گھر سے نہ ہو
سکا میرا رِشتہ ذرا بھی کم
دیوانگیءشوق تھی جس کے لیے میری
دشتِ جنوں میں
آج ہے اُس کی صدا بھی کم
فُرصت بھی کم ملی
مجھے غیروں کے درد سے
یوں زندگی گزر
گئی ،خود سے ملا بھی کم
دل کو دُکھاتے
رہتے ہیں ہر موڑ پر وہی
ہوتی نہیں ہے جِن سے محبت ذرا بھی کم
راشدؔ فضلی
No comments:
Post a Comment