غزل
نگاہوں کے تصادم سے عجب تکرار کرتا ہے
یقیں کامل نہیں
لیکن گماں سے پیار کرتا ہے
لرز جاتی ہوں میں یہ سوچ کرکہیں کافر نہ ہو جاؤں
دِل اُس کی پوجا
پر بڑا اِسرار کرتا ہے
اُسے معلوم ہے
شاید" میرا دِل ہے نشانے پر"
لبوں سے کچھ
نہیں کہتا ، نگاہ سے وار کرتا ہے
میں اُس سے
پوچھتی ہوں خواب میں "مجھ سے محبت
ہے"
پھر آنکھیں کھول
دیتی ہوں ، جب وہ اِظہار کرتا ہے
پروین شاکرؔ
No comments:
Post a Comment