غزل
کون سمجھائے گا
دیوانے کو
کھیل سمجھا ہے
دِل لگانے کو
تیر کو چھوڑنے
سے پہلے تُو
غور سے دیکھ لے
نشانے کو
بات اُن تک پہنچ
گئی ہو گی
دِل ہے بے تاب
جو سنانے کو
پھول پوری طرح
کِھلا ہی نہیں
اور خبر ہو گئی
زمانے کو
روٹھنا ہے تو
روٹھ جا کاوش ؔ
وہ نہیں آئے گا
منانے کو
No comments:
Post a Comment