غزل
کیسے وہ لوٹ آئے
کہ فُرصت اُسے نہیں
دُنیا سمجھ رہی
ہے ، محبت اُسے نہیں
لگتا ہے آ چکی
ہے کمی اُس کی چاہ میں
کافی دنوں سے
مجھ سے شکایت اُسے نہیں
دِل کی زمیں ہے
اُس کی بنجر اِس لئے
جذبوں کی بارشوں
کی عادت اُسے نہیں
ہر چیز اختیار
میں وہ رکھتا ہے مگر
دِل سےرہائی
پانے پہ قدرت اُسے نہیں
اُس پہ زمانہ
رنگ جماتا بھی کس طرح
حیرت کدے میں رہ
کے بھی حیرت اُسے نہیں
صحرا کے ہر ایک
ورق پہ تحریر ہے اُسکا نام
کل تک جو کہہ رہ
تھا وحشت اُسے نہیں
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment