غزل
بسا ہوا ہےخیالوں میں
کوئی پیکرِ ناز
بُلا رہی ہےابھی تک
وہ دلنشیں آواز
وہی دنوں میں تپش ہے
وہی شبوں میں گُداز
مگر یہ کیا کہ میری
زندگی میں سوز نہ ساز
نہ چھیڑ اے خلشِ درد
بار بار نہ چھیڑ
چھپائے بیٹھا ہوں
سینے میں اک عمر کے راز
بس اب توایک ہی دُھن
ہے کہ نیند آجائے
وہ دن کہاں کہ اُٹھائیں شبِ فراق کے ناز
گزر ہی جائے گی ائے
دوست تیرے ہجر کی رات
کہ تجھ سے بڑھ کر ترا
درد ہے مرا دَم ساز
یہ بے سبب نہیں شام و
سحر کے ہنگا مے
اُٹھا رہا ہے کوئی
پردہ ہا ئے راز و نیاز
تیرا خیال بھی تیری
طرح مکمل ہے
وہی شباب، وہی دلکشی
، وہی انداز
شراب وشعر کی دنیا
بدل گئی لیکن
وہ آنکھ ڈھونڈ ہی
لیتی ہے بے خودی کا جواز
عروج پر ہے میرا
درداِن دنوں ناؔصر
میری غزل میں دھڑکتی
ہے وقت کی آواز
No comments:
Post a Comment