Tuesday, 6 March 2018

Qurbatoon Ki Dua



غزل

بچھڑے تو قربتوں کی دُعا بھی نہ کر سکے
اب کے تجھے سُپردے خُدا بھی نہ کر سکے

تقسیم ہو کے رہ گئے صد کرچیوں میں ہم
نامِ وفا کا قرض ادا بھی نہ کر سکے

نازک مزاج لوگ تھے ہم جیسے آئینہ
ٹُوٹے کچھ اِس طرح کہ صدا بھی نہ کر سکے

خُوش بھی نہ رکھ سکے تجھے اپنی چاہ میں
اچھی طرح سے تجھ کو خفا بھی نہ کر سکے

ایسا سلوک کر کے تما شائی ہنس پڑیں
کوئی گلہ گزار، گلہ بھی نہ کر سکے

ہم منتظر رہے کوئی مشقِ ستم تو ہو
تم مصلحت شناس، جفا بھی نہ کر سکے
 اعتبار ساؔجد



No comments:

Post a Comment

Waqt kay sitam ( The tyranny of time)

غزل وقت نے جو کیٔے ستِم ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم بہار بھی خزاں لگے جب سے ہوے جدا صنم کس کو دِکھاؤں داغِ دل کوئی نہیں  میرا ہمدم ...