غزل
بچھڑے تو قربتوں کی دُعا
بھی نہ کر سکے
اب کے تجھے سُپردے خُدا بھی
نہ کر سکے
تقسیم ہو کے رہ گئے صد
کرچیوں میں ہم
نامِ وفا کا قرض ادا بھی نہ
کر سکے
نازک مزاج لوگ تھے ہم جیسے
آئینہ
ٹُوٹے کچھ اِس طرح کہ صدا
بھی نہ کر سکے
خُوش بھی نہ رکھ سکے تجھے
اپنی چاہ میں
اچھی طرح سے تجھ کو خفا بھی
نہ کر سکے
ایسا سلوک کر کے تما شائی
ہنس پڑیں
کوئی گلہ گزار، گلہ بھی نہ
کر سکے
ہم منتظر رہے کوئی مشقِ ستم
تو ہو
تم مصلحت شناس، جفا بھی نہ
کر سکے
اعتبار ساؔجد
No comments:
Post a Comment