Thursday, 31 December 2020

Dill barbad ( Heart dissipated )


 غزل


دل برباد کو ہم برباد کہاں تک رکھتے؟؟

جانے والے تجھے ہم یاد کہاں تک رکھتے؟


اب تیرے ہجر  کی باتیں نہیں سنتا کوئی

ہم لبوں پر تیری رُوداد کہاں تک رکھتے؟


بڑی مشکل سے نکالا ہے تیری یادوں کو

اپنے گھر میں اِنہیں آباد کہاں تک رکھتے؟


کارِ دُشوار تھا، دوبارہ محبت  کرنا لیکن !

خود کو بیکار تیرے بعد کہاں تک رکھتے؟




 

Wednesday, 30 December 2020

Jo Ansoo Dill main ( The tears in my heart )


غزل


جو آنسو دِل میں گرتے ہیں

وہ آنکھوں میں نہیں رہتے


بہت سے حرف ایسے ہیں

جو لفظوں میں نہیں رہتے


کتابوں میں لکھے جاتے ہیں

دُنیا بھر کے افسانے


مگر جن میں حقیقت ہو

کتابوں میں نہیں رہتے


بہار آئے تو ہر اِک

پھول پر اِک ساتھ آتی ہے


ہوا جن کا مُقدر ہو

وہ شاخوں میں نہیں رہتے


مہک اور تتلیوں کا نام

بھونرے سے جُدا کیوں ہے


کہ یہ بھی تو خزاں آنے پہ

پھولوں میں نہیں رہتے 



 

Tuesday, 29 December 2020

Meri Ankhon ko ( To my eyes )


غزل


میری آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں

یا مُقدر میں راستہ ہی نہیں


وہ بھرے شہر میں کِسی سے بھی

میرے بارے میں پوچھتا ہی نہیں


پھر وہی شام ہے وہی ہم ہیں

ہاں مگر دِل میں  حوصلہ ہی نہیں


ہم چلے اُس  کی بزم سے اُٹھ کر 

اور وہ ہے کہ روکتا ہی نہیں


دِل جو اِک دوست تھا مگر وہ بھی

چُپ کا پتھر ہے بولتا    ہی نہیں


میں تو اُس کی تلاش میں گُم ہوں

وہ کبھی مجھ کو ڈھونڈتا ہی نہیں


 نوشی گیلانی



 

Monday, 28 December 2020

Dill mai teray ( Stay in your heart.)


کون بھنور میں ملاحوں سے تکرار کرے گا

اب تو قسمت سے ہی  کوئی دریا پار   کرے گا


دِل میں تیرا قیام تھا ،لیکن یہ کسے خبر تھی

دُکھ بھی اپنے ہونے کا اصرار کرے گا


نوشی گیلانی



 

Mill gai aap ko ( You got time )


غزل

مل گئی آپ کو فُرصت کیسے

یاد آئی میری صورت کیسے


پُوچھ اُن سے جو بچھڑ جاتے ہیں

ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کیسے


تیری خاطر تو یہ آنکھیں پائیں

میں بُھلادوں تیری صورت کیسے


اب تو سب کچھ مُیسر ہے اُسے

اب اُسے میری ضرورت کیسے


تجھ سے اب کوئی تعلق ہی نہیں

تجھ سے اب کوئی شکایت کیسے


کاش ہم کو بھی بتا دے کوئی

لوگ کرتے ہیں محبت کیسے


تیرے دِل میں میری یادیں تڑپیں

اتنی اچھی میری قسمت کیسے


وہ تو خود اپنی تمنا ہے عدیمؔ

اُس کے دِل میں کوئی چاہت  کیسے




 

Sunday, 27 December 2020

Bewafa Se Dil Laga Kar ( Weeping unfaithfully )


غزل

بے وفا سے دل لگا کر رو پڑے

دل پہ ہم اِک چوٹ کھا کر رو پڑے


جس نے پوچھا ہم سے بچھڑے یار کا

اُس کو سینے سے لگا کر رو پڑے


اپنے دِلبر کی خوشی کے واسطے

دِل کا ہر ایک غم چُھپا کے رو پڑے


 لکھ کے اُس کا نام دِل کے ورق پر

اپنی ہستی کو مٹا کر رو پڑے


جو دیئے ہیں زخم صادقؔ یار نے

وہ زمانے کو دکھا کر رو پڑے





 

Friday, 25 December 2020

Parakhna mat ( Do not judge )


غزل

پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا

کسی بھی آئینے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا


بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا

جہاں دریا سمندر سے ملا دریا   نہیں رہتا


تمہارا شہر تو بلکل نئے انداز والا ہے

ہمارے شہر میں بھی اب کوئی ہم سا نہیں رہتا


محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے

کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا




 

Thursday, 24 December 2020

Jeena ho ga ( Have to live )

 

ناز وانداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہوگا

زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا


جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں

 جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا



 

Wednesday, 23 December 2020

Dewana hoon main ( I am crazy )


غزل

دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں

دُنیا کے خداؤں سے، خُدا مانگ رہا ہوں


اُس شخص سے چاہت کا صلہ مانگ رہا ہوں

حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں


الفاظ بھی سادہ ہیں میری بات بھی سادہ

ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیاء مانگ رہا ہوں


پہنے ہوئے نکلا ہوں جو بکھرے ہوئے پتے

ہر شخص سے میں سگِ صبا   مانگ رہا ہوں


گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا

اَب مانگ رہا ہوں ، تو خُدا مانگ رہا ہوں


بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے میرے پاس

پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا   مانگ رہا ہوں



 

Monday, 21 December 2020

Muhabbat hum bhi kartay hain ( We love too )


نظم

بہت آسان ہے کہنا

محبت ہم بھی کرتے ہیں

مگر مطلب محبت کا

سمجھ لینا نہیں آسان

محبت پا کے کھو دینا

محبت کھو کے پا لینا

یہ اِن لوگوں کے قصّے ہیں

محبت کے جو مُجرم ہیں

جو مل جانے پہ ہنستے ہیں

بچھڑ جانے پہ روتے ہیں

۔۔۔۔۔سُنو۔۔۔۔۔۔

محبت کرنے والے تو

بہت خاموش ہوتے ہیں

جو قُربت میں بھی جیتے ہیں

جو فُرقت  میں بھی جیتے ہیں

نہ وہ فریاد کرتے ہیں

نہ وہ اشکوں کو پیتے ہیں

محبت کے کسی لفظ کا

چرچا نہیں کرتے

وہ مر کے بھی اپنی چاہت کو

کبھی رُسوا نہیں کرتے

بہت  آ سان ہے کہنا

 محبت ہم بھی کرتے ہیں۔۔



 

Sunday, 20 December 2020

Kheyaal Rakhna ( Take care )

 

نظم

محبتوں کے وہ باب سارے

وہ چاہتوں کے گلاب سارے

سنبھال رکھنا، خیال رکھنا


وفا میں ساری عنایتوں کا

وہ ٹوٹے دِل کی شکایتوں کا

حساب رکھنا، خیال رکھنا


گلاب رُت کے وہ سارے قصّے

کبھی کسی کو سنا نا چاہو

تو لفظوں کو بے مثال رکھنا

خیال رکھنا

 

کبھی جو ہم تم کو یاد آئیں

تو ہم سے رشتہ بحال رکھنا

یہ دوستی لازوال رکھنا

خیال رکھنا



 

Saturday, 19 December 2020

Yaad nahi ( Do not remember )


غزل

سفر منزلِ شب یاد نہیں

لوگ رُخصت ہوئے کب یاد نہیں


وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پُھول

ایک صورت تھی عجب یاد نہیں


کیسی ویراں ہے گزر گاہ ِخیال

جب سے  وہ عارض ولب یاد  نہیں


ایسا اُلجھا ہوں غم ِ دُنیا میں

ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں


یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم

یاد ہی کب تھے جو اَب یاد نہیں


یاد ہے سیرِ چراغاں ناصرؔ

دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں




 

Friday, 18 December 2020

Shola sa jal bujha hoon ( Like a flame )

غزل

شعلہ سا جل بجھا ہوں، ہوائیں مجھے نہ دو

میں کب کا جا چُکا ہوں ، صدائیں مجھے نہ دو


جو زہر پی چکا ہوں ،تمہی نے مجھے دیا

اب تم تو  زندگی کی ،دُعائیں مجھے نہ دو


ایسا کبھی  نہ ہو کہ پلٹ کر  نہ آ سکوں

ہر بار دُور جا کے ،صدائیں مجھے نہ دو


کب مجھ کو اعترافِ  محبت نہ   تھا فرازؔ

کب میں نے یہ کہا تھا، سزائیں  مجھے نہ دو


احمد فرازؔ



 

Thursday, 17 December 2020

Sabir aur zabt ( Patience and restraint )





صبر اورضبط کی دیوار اُٹھائی جائے

سینہ دُکھتا ہے تو دُکھے، آہ دبائی جا ئے


یا تو وعدہ نہ کرو، کرلو تو  پھر یاد رکھو!

جان جائےکہ رہے، بات نبھائی جائے



 

Chand khawab ( A Few dreams)



چند خوابوں کے عطا کرکے اُجالے مجھ کو

کردیا وقت نے دُنیا کے حوالے مجھ کو


جن کو سورج میری چوکھٹ سے ملا کرتا تھا

اب وہ خیرات میں دیتے ہیں اُجالے مجھ کو



 

Wednesday, 16 December 2020

Geet likhay thay ( Song written )


گیت لکھے بھی تو ایسے کہ سنائے نہ گئے

زخم یوں لفظوں میں اُترے کہ دِکھائے  نہ گئے


آج تک رکھے ہیں پچھتا وے کی الماری میں

اک دو وعدے جو دونوں سے نبھائے نہ گئے




 

Sunday, 13 December 2020

Meray Mehboob (Where are you my love )

نظم

میرے محبوب تم کہاں ہو

دل میرا اتم کو تلاش کرتا ہے

دنیا کے اِس ہجوم میں

تنہائی کے عالم میں

اڑتے ہوئے بادلوں میں

شہر کی رعنایوں میں

تیری ہی کمی محسوس ہوتی ہے

رات کو سڑکوں پر

ستاروں کی خواہش  لیئے

میں کہاں تلاش کروں

تم کہاں مل سکتے ہو

برسوں سے نہیں پُکارہ

تمہارا نام اونچی آواز میں

کتنی مدّت بیت گئی ہے

میں نے آپ کو اپنا کہا تھا ،

وقت کے بہتے دریا میں

آپ اور میں  مل جائیں

میں نے سیکھ لیا ہے

تیرے بغیر  جینا مگر

میں اب بھی تم سے پیار کرتا ہوں

میرے محبوب تم کہاں ہو

عادل ؔ



 

Thursday, 10 December 2020

Marti howe zameen ko ( The dying earth )

غزل

مرتی ہوئی زمین کو بچانا پڑا مجھے

بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے


وہ کر نہیں رہا تھا میری بات کا یقین

پھر یوں ہوا کہ مر کے دِکھانا پڑا مجھے


بُھولے  سے میری سِمت کوئی دیکھتا نہیں

چہرے پہ اِک زخم لگانا پڑا مجھے


اُس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے

محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے


اُس بے وفا کی یاد دِلاتا تھا بار بار

کل آئینے پہ ہاتھ اُٹھانا پڑا مجھے


ایسے  بچھڑ کے اُس  نے تو مر جانا تھا محسنؔ

اُس کی نظر میں خود کو گِرانا پڑا مجھے 





 

Wednesday, 9 December 2020

Sar say pa tak ( From head to toe )


غزل

سر سے پا  تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے

باوضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے


میں تیرے ساتھ ستاروں سے گذر سکتا ہوں

کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے


مجھ میں رہتا ہے کوئی دُشمنِ جانی میرا

خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے


بُت بھی رکھے ہیں ، نمازیں بھی ادا ہوتی ہیں

دِل میرا دل نہیں، اللہ کا گھر لگتا ہے


زندگی تونے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں

پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر  لگتا ہے


بشیر بدرؔ 




 

Waqt kay sitam ( The tyranny of time)

غزل وقت نے جو کیٔے ستِم ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم بہار بھی خزاں لگے جب سے ہوے جدا صنم کس کو دِکھاؤں داغِ دل کوئی نہیں  میرا ہمدم ...